سپريم کورٹ لاہور رجسٹری نے ذہنی معذورقيديوں کی سزائے موت کوعمر قيد ميں تبديل کرديا ہے۔جسٹس منظوراحمد ملک نے 5 رکنی بنچ کا فیصلہ سنایا۔
سپريم کورٹ لاہور رجسٹری میں بنیادی طور پرتین ذہنی معذور قیدیوں کا معاملہ آیا تھا۔عدالت نےاس معاملے پرمعاون مقررکیا اورپھرتفصیلی فیصلہ جاری کیا۔عدالت نےفیصلےمیں کچھ قوانین بھی واضح کئےہیں جن کے مطابق ذہنی معذورقیدی یا سزا کےبعد ذہنی معذورقیدی کےساتھ کیا سلوک روا رکھا جائے گا۔
اس کیس میں ذہنی معذور قیدی امداد علی اور کنیزاں بی بی کی سزائے موت کوعدالت نےعمر قید میں تبدیل کردیا ہے اورذہنی امراض کےاسپتال منتقل کرنيکاحکم دیا ہے۔ امداد علی سال 2000 سے اور کنیزاں بی بی سال 1991 سے جیل میں قید ہیں۔ تیسرے مجرم غلام عباس کو سال 2004 میں سزائے موت ہوئی تھی۔ اس کی رحم کی اپیل دوبارہ صدر مملکت کو بھجوانے کےلیے سپریڈینڈٹ جیل کو ہدایت کی گئی ہے۔
عدالت نے واضح کردیا ہے کہ جیل کے قوانین میں ترامیم کی جائیں۔عدالتی فیصلےمیں ذہنی معذورقیدیوں کے مقدمے کو چلانے کے قواعد بتائے گئے ہیں۔ایسے قیدیوں کو پہلے میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ ایسے قیدی جو سزائے موت کےبعدذہنی معذور ہوئے ہوں،ان کو بھی میڈیکل بورڈ کےسامنےپیش کیا جائے گا۔ میڈیکل بورڈ ان وجوہات کا تعین کرے گا جن کی بنیاد پر سزائےموت پرعمل درآمدنہیں ہوسکتا۔اس فیصلے کی کاپی تمام صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کو ارسال کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔