کوالا لمپور ملائیشیا کے سابق اٹارنی جنرل ٹامی تھامس نے اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب میں ڈاکٹر ذاکر نائیک سے متعلق اہم انکشافات کیے ہیں۔ملائیشیا کے ایک اخبار کے مطابق سابق اٹارنی جنرل ٹامی تھامس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ذاکر ناک کے نظریات متنازع تھے تاہم اس کے باوجود انہیں ملائیشیا میں
مستقل رہائش کی اجازت دی گئی جب کہ وہ بھارت واپس جا کر خود پر قائم فوج داری مقدمات، منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنڈنگ جیسے الزامات کا جواب دینا چاہتے تھے۔تھامس کا کہنا ہے کہ 2018 سے 2020 تک جب وہ اٹارنی جنرل تھے اس دوران بھارتی ہائی کمشنر نے کہا کہ اگر ملائیشیا ذاکر نائیک کو بھارت کے حوالے کرنے کے بجائے صرف انہیں ملک سے نکال دے تو بھارتی حکومت کے لیے یہ اقدام ہی کافی ہوگا۔سابق اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ بھارت صرف چاہتا تھا کہ ہم ذاکر نائیک کو ملک بدرکر دیں اور اس کے بعد وہ جہاں چاہیں جائیں اس سے ملائیشیا کا کوئی سروکار نہ ہو۔ ان کا اصرار تھا کہ صرف اس اقدام سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں آنے والی کشیدگی کم ہوجائے گی۔اپنی یادداشت میں تھامس نے لکھا کہ انہوں نے سب سے پہلے مقامی پولیس چیف سے اس بارے میں مشورہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ذاکر نائیک کو ملک بدر کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ اس کے بعد انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کو بھارتی ہائی کمیشن کا پیغام پہنچایا۔تھامس کا کہنا ہے کہ وہ دو بار ذاکر نائیک کا معاملہ مہاتیر محمد کے پاس لے کر گئے اور ہر بار انہوں نے یہی کہا کہ کوئی تیسرا ملک ذاکر نائیک کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بعد میں انہوں نے یہ معاملہ ایک اور سینیئر افسر کے سامنے
اٹھایا تو وہاں بھی انہیں یہی بتایا گیا کہ بنگلادیش، ایران، پاکستان، قطر اور سعودی عرب میں سے کوئی بھی ملک ذاکر نائیک کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ٹامی تھامسن نے کتاب میں وزیر اعظم مہاتیر کی اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ذاکر نائیک کو ملک میں رکھنا ان کی مجبوری بن چکی تھی۔