آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کا مشروط طور پر قرضے معاف کرنے کا عندیہ

0


نیو یارک : آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک نے دنیا کے غریب ممالک کو “گرین پراجیکٹس” کے بدلے قرضوں میں چھوٹ دینے کے لئے اہم فیصلہ کیا ہے جس پر ٹھوس تجاویز طلب کی گئی ہیں۔

عالمی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی رواں ہفتے ہونے والی موسم بہار کی میٹنگز میں غریب ممالک کے قرضوں کو ماحول دوست “سبز” سرمایہ کاری کے بدلے معاف کرنے کے منصوبے پر سنجیدگی سے غور کیا گیا ہے۔

غیر ملکی  کے رپورٹ کے مطابق اس موسم خزاں میں ہونے والے عالمی موسمیاتی اجلاس میں ٹھوس تجاویز کی توقع کی جارہی ہے۔

کورونا وائرس کے بعد عالمی سطح پر معاشی گراوٹ کے باعث غریب ممالک کو دہرے بحران کا سامنا ہے ان پر اپنے قرضوں کی ادائیگی کا دباؤ ہے جبکہ ساتھ ہی وہ ماحولیاتی مسائل سے بھی نبرد آزما ہیں۔

اس حوالے سے آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالین جارجیوا کا کہنا ہے کہ یہ بات انہیں بہت زیادہ کمزور کرتی ہے۔ اس طرح دنیا کو نام نہاد سبز قرضوں کے تبادلے کا خیال سمجھ آتا ہے۔

ورلڈ بینک کی ترجمان نے بھی اسی نکتے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کے بحران نے ترقی پذیر ممالک کے لیے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی تباہیوں کے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا کرنا نہایت مشکل بنا دیا ہے

پہلے ہی کم بجٹ کے ساتھ ان ممالک کو وباء کے شدید اثرات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے ہنگامی مالی امداد کا استعمال کرنا پڑا ہے۔

ورلڈ بینک کی ترجمان کے مطابق ایک تکنیکی ورکنگ گروپ جس نے نہ صرف آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے نمائندوں کو بلکہ اقوام متحدہ اور او سی ای ڈی کے نمائندوں کو بھی اکھٹا کیا اسے اسی ہفتے شروع کیا گیا تھا تاکہ اس طرح کے چیلنجوں سے نبرد آزما ممالک کی مدد کے تخلیقی مواقعوں کو جائزہ لیا جا سکے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ ابھی ٹھوس اقدامات کے لیے کسی خاص وقت کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن اس میں شامل تمام فریق واضح طور پر اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں ہونے والے سی او پی 26 ویں موسمیاتی اجلاس کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے پیرس کی ایک عالمی سرمایہ کار کمپنی کے سی ای او چیریدو کا کہنا ہے کہ اگر سبز قرضوں کے تبادلے کے آپشن کی جانب جایا جاتا ہے تو اسے واضح طور پر اس عمل سے “مشروط” کرنا ہو گا کہ قرض میں ریلیف سبز منصوبوں کے آغاز کا باعث بنے۔

آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو متعدد جزیرے پر مبنی ممالک کی درمیانی آمدنی والی معیشتوں کی حالت زار پر بھی غور کرنا پڑے گا جنہیں معاشی امداد تو کم ملتی ہے لیکن انہیں ماحولیاتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here