Home Blog Page 287

بیوروکریسی میں سب سے زیادہ کامیاب وہ ہے جو کام نہ کرے،شبرزیدی کھل کربول پڑے ، تہلکہ خیز انکشافات

0


اسلام آباد سابق چیئر مین ایف بی آر شبرزیدی نے کہا ہے کہ بیوروکریسی میں سب سے زیادہ کامیاب وہ ہے جو کام نہ کرے،100کاموں میں 5غلط بھی ہو سکتے ہیں ،95 پر شاباشی نہیں ملے گی،سوچتا ہے 5پر ساری زندگی نیب کو بھگتتا رہوں گا،مالی بے ضابطگیوںکی تفتیش ،عدالتوں ،بیوروکریسی اور فوج کا کام نہیں ،آڈٹ کرنے والے پروفیشنل کا ہے،ایف بی آر،ایس ای سی پی ،ایف آئی اے ،نیب اور اسٹیٹ بینک کے فنانشل کرائمز کے سیکشن بند کرکے فنانشل ریگولیٹری بنانی چاہئے،نیا ہیڈ آفس اسلام آباد سے دور ہو،میری اس تجویز میں رکاوٹ عمران خان نہیں بلکہ

معاشرہ اور سسٹم بنا،میں نے پاناما میں بھی ان کی مدد کی، کاروباری یا بیورو کریٹس نہیں چاہتے ان کے مالیاتی معاملات پروفیشنل ایکسپرٹ دیکھے ،پاکستان کے بجٹ کا آغاز منفی سے ہوتا ہے، ریونیو سروس کی تجویز پر ایف بی آر کے تمام ملازمین نے مخالفت کی ،عشرت حسین سے بھی اختلاف رہا،سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اس لئے کم رکھی گئیں کہ قابل لوگ یہاں نہ آئیں ،کرپشن چلتی رہے،پاکستان کابدترین سال 2018 رہا ،عمران خان نے کوئی معاشی غلطی نہیں کی،پاکستان کو ریکوڈک جیسی کانوں کی مائیننگ میں کم از کم 50 سال لگیں گے،یہ کام باہر کی کوئی کمپنی ہی کرسکتی ہے، زرداری اورنواز شریف کےوہی کاروبار ہیں جن میں ڈاکومینٹیشن نہیں ہے،اس میں اسٹیل رولنگ مل ،شوگر ،پولٹری ،ریئل اسٹیٹ شامل ہیں۔خریداری پر شناخت ظاہر نہ کرنا کاروباری طبقے کی بدترین بددیانتی ہے۔میں پراپرٹی کی ویلیو مارکیٹ ویلیو پر لے آیا۔ عالمی عدالتوں میں کیس جیتنے کیلئے کرپشن ثابت کرناہوتی ہے،مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کو تنقید کے علاوہ کبھی کوئی پلان پیش کرتے نہیں دیکھا، لوگوں نے مجھ پر مفادات کے ٹکراو کاالزا م لگایا میں نے کبھی ٹیکس چور کمپنی کیلئے خدمات پیش نہیں کیں ۔میں نے کہا پاکستان ریونیو سروس بنائی جائے جس کی وزیراعظم نے بھیمخالفت نہیں کی لیکن ایف بی آر کے بائیس ہزار ملازمین میں سے کسی ایک نے بھی رضامندی کااظہار نہیں کیا ۔اس حوالے سے عشرت حسین سے بھی اختلاف رہا میرا خیال تھا کہ ایف بی آر کو اسٹیٹ بینک کی طرز پر چلانا چاہئے ۔عشرت حسین کی سرکاری نوکری کی وفاداری ختم نہیں ہوئی ۔عشرت حسین سے کہتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ تنخواہ تو سرکاری نوکری جتنی دی جائیں اورپیشے کے بہترین ماہرین ادارے میں کام کریں۔ہمارا مسئلہ یہی ہے ۔سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اس لئے کم رکھی گئیں تاکہ قابل لوگ یہاں نہ آئیں اورکرپشن کا بازار چلتا رہے ۔تنخواہیں جانبوجھ کر کم رکھی گئی ہیں۔ روزنامہ جنگ کی رپورٹ کے مطابق انہوںنے ان خیالات کا اظہار ایک انٹرویو میں کیا۔شبرزیدی نے کہا کہ چالیس پچاس لاکھ خوردافروش ہیں لیکن ایک بھی رجسٹرڈ نہیں ۔نظام نہیں چاہتا کہ ٹیکس جمع ہو ۔ٹیکس آمدنی کی بنیاد پر جمع نہ کرانا سب سے بڑیخرابی ہے ۔میں نے پراپرٹی کی ویلیو کو بڑھا دیا اور اسے مارکیٹ ویلیو پر لے آیا جس سے فلیٹ کی مارکیٹ ختم ہوگئی ۔ میں نے کمرشل امپورٹ کو ریٹیل پرائز پر کردیا جس سے انڈر انوائسنگ کی کمر ٹوٹ گئی پھر چین کی حکومت سے معاملات طے کئے ۔خریداروں کوکہا کہ شناخت ظاہرکریں،شناختی کارڈ کی شرط ختم کرنے کیلئے عمران خان پر بہت دباو تھا کراچی کے تمام بزنس مینوں نے کہا کہ شرط ختم کریں عمران خان نے مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا یہ شرط بالکل ٹھیک ہے جس پر عمران خان نے کہا کہ شرط نہیں ہٹا سکتے اسی لئے میں عمران خان کی حمایت کرتا ہوں ۔خریداری پر شناخت ظاہر نہ کرنا کاروباری طبقے کی بدترین بددیانتی ہے ۔بلاول بھٹو،مریم نواز،اسحاق ڈار ،مفتاح اسماعیل پاکستان کے تمام چیمبر میں سے کسی نے نہیں کہا کہ یہ شرط ٹھیک ہے اس سے بڑی منافقت نہیں ہے ۔یہ کسی کی ذات سے دشمنی کرتے ہیں اور پاکستان کے مفاداتداوپرلگا دیتے ہیں۔میں نے ٹیکسٹائل پر زیرو ریٹنگ ختم کی اب کہا جارہا ہے کہ فیصلہ واپس لیا جائے اس کی کہانی یہ ہے کہ پاکستان میں اس سے لوکل ٹیکسٹائل متاثر ہوتی ہے ۔ملک غلام کو پاکستان کی تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی انہوں نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا ،ایوب خان کےدور میں بھی کرپشن تھی لیکن کسی سیاسی شخصیت پر کرپشن کا الزام عائد نہیں ہوتا تھا ۔ deregulation of pakistan economyکے تحت protection of economic ordinance کاقانون 1992میں بنایا گیا جس سے منی لانڈنگ کی بنیاد پڑی اس قانون سے بدترین قانون پاکستان میں نہیں ہوسکتا ۔ایک قانون تھا کہ پاکستانی بیرون ملک اثاثےنہیں رکھ سکتے پھر یہ قانون کتابوں میں دب گیا ۔ملک میں آرگنائز کرپشن ہے ۔اسمگلرکہتے ہیں کہ اسمگلنگ ہمارا کاروبار ہے ۔عمران خان ایک دیانتدار اور سمجھدار انسان ہیں لیکن ان کی ٹیم بڑی ہے ان کی ٹیم پانچ سے چھ لوگوں کی ہونی چاہئے ۔پاکستان کا بدترین سال 2018کا تھا ،عمران خان نے کوئی معاشی غلطی نہیں کی ۔شبر زیدی نے کہاکہ میں نے اور میرے پارٹنر نے پاناما کیس میں عمران خان کی مدد کی تھی، سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھیں بنی گالہ کی جائیداد میں مکمل شفافیت ہے ، عمران خان نے بنی گالہ کی پراپرٹی فائنانس کی، یہ پراپرٹی جمائما خانکے نام تھی انہیں عمران خان پیسے دے چکے ہیں، ایک سال میں گوشہ نشین رہا ہوں، عمران خان کی شخصیت کا دوسرے پاکستانی سیاستدانوں سے موازنہ کیا جائے تو کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا،مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کو تنقید کے علاوہ کبھی کوئی پلان پیش کرتے نہیں دیکھا۔شبر زیدی کا کہنا تھا کہ ایف بی آر، ایس ای سی پی، نیب، ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک کے فائنانشل کرائم انویسٹی گیشن کے سیکشنز بندکر کے ایک فائنانشل ریگولیٹری اتھارٹی بنائی جائے جس کا ہیڈکوارٹر کراچی ہو، بلوچستان حکومت اور ریکوڈک کے درمیان معاہدہ میں قابلیت کا بڑا فرق تھا،ٹیتھیان دنیا کے بہترین وکیلوں کے ساتھ آئی اس کے مقابلہ میں حکومت بلوچستان کے پاس عالمی معاہدہ سمجھنے والے ماہرین نہیں تھے، سپریم کورٹ کو ریکوڈک کا معاہدہ منسوخ کرنے کے بجائے اس پر نظرثانی کرنے کا حکم دینا چاہئے تھا، ٹیتھیان ریکوڈک پر 258ارب ڈالرز خرچ کرچکی تھی،وہاں رہائش کیلئے فائیو اسٹار جیسی سہولیات بنائی گئی تھیں، پاکستان کو ریکوڈک جیسی کانوں کی مائننگ میں کم از کم پچاس سال لگیں گے، ریکوڈک سے مائننگ باہر کی کوئی کمپنی ہی کرسکتی ہے، ٹیتھیان سے بات کر کے دوبارہ کام شروع کرنے کا راستہ نکالا جاسکتا ہے۔ شبر زیدی نے کہاکہ بین الاقوامی معاملات میں مقدمات ہارنے کی وجہ وکیل نہیں ہیں، آپ کسی معاہدہ کی خلاف ورزی کریں گے تو بیرونی کمپنیاں ہرجانہ کا دعوی کریں گی وہاں وکیل کیا کرسکتا ہے، عالمی عدالتوں میں کیس جیتنے کیلئے کرپشن ثابت کرنا ہوتی ہے۔ شبر زیدی کا کہنا تھا کہ نواز شریفاور آصف زرداری اور نواز شریف کاروباری خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، آصف زرداری اور نواز شریف کے وہی کاروبار ہیں جن میں ڈاکومنٹیشن نہیں ہے اس میں اسٹیل رولنگ مل، شوگر، پولٹری، ریئل اسٹیٹ شامل ہیں ،پاکستان کے تمام کاروباری حضرات نے میری دی ہوئی ایمنسٹیاسکیم سے فائدہ اٹھایا انہیں بھی فائدہ لینا چاہئے تھا، میں سمجھتا ہوں کہ کاروباری پیسے اور نان کاروباری پیسے کو الگ کرنا ناممکن ہے، یہ حقیقت ہے کہ پاکستان سے پیسہ باہر گیا ہے۔ سابق ایف بی آر سربراہ شبر زیدی نے مزیدکہا کہ مالیاتی بے ضابطگیوں کی تفتیش کرنا فوجیوں کا کام نہیں،اگر ٹریس اینڈ ٹریک سسٹم آگیا تو ملک میں بہت سی جگہوں سے چوری ختم ہوجائے گی۔شبر زیدی نے کہا کہ پاکستان کی مالیات کے حوالے سے جتنی معلومات میرے پاس ہے وہ شائد پاکستان میں کسی کے پاس نہیں ہوگی میں نے چالیس برس گزارے میں اسٹیٹ بینک کے بورڈ میں بھی رہا اسٹاک ایکسچینج کا پانچ سال ڈائریکٹر رہا ہوں میں جو کچھ جانتا ہوں پاکستان میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔

روٹیشن پالیسی نافذ، وزیراعظم کے عزم کا امتحان شروع صوبوں کی مخالفت بھی کھل کر سامنے آگئی

0


اسلام آباد پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس اور پولیس سروس آف پاکستان کیلئے روٹیشن پالیسی نافذ کر دی گئی ہے جس کا اطلاق یکم جنوری 2021 سے ہو گیا ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان نے پالیسی پر اس کی روح کے مطابق عمل کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ تاہم،صوبوں نے رکاوٹیں پیدا کرنا شروع کر دی ہیں کیونکہ یہ اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ خصوصاً پنجاب نے گریڈ 21 کے ایسے کئی افسروں کو ریلیو کرنے کیلئے وقت مانگ لیا ہے جنہیں روٹیشن پالیسی کے تحت صوبوں سے باہر بھیجا جانا تھا۔ روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر

کے مطابق وزیراعظم پالیسی پر عملدرآمد کیلئے پرعزم ہیں لیکن کئی رکاوٹیں ہیں۔ خدشہ ہے کہ اگر پالیسی کے معاملے میں استثنیٰ پیدا کیا گیا تو اس کا حشر بھی وہی ہوگا جو ماضی میں حکومتوں کی جانب سے ایسی ہی جاری کردہ پالیسیوں کا ہوا تھا۔ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران مختلف حکومتیں روٹیشن پالیسی متعارف کراتی رہی تھیں جنہیں بین الصوبائی ٹرانسفر پالیسی بھی کہا جاتا تھا۔ لیکن ان میں سے ایک بھی حکومت پالیسی پر عمل نہ کرا سکی کیونکہ بیوروکریٹس اتنے با اثر تھے کہ انہوں نے اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے اپنی پسند کے صوبوں میں ملازمت جاری رکھنے کا انتخاب کیا۔ عموماً پنجاب بالخصوص لاہور کے بیوروکریٹس اکثرو بیشتر مختلف حکومتوں کی جانب سے لائی جانے والی اس پالیسی کو ناکام بنانے میں کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے چند ماہ بعد ہی وزیراعظم عمران خان نے بھی بین الصوبائی ٹرانسفر کی اس پالیسی پر عمل کی کوشش کی لیکن ان کی حکومت بھی ناکام رہی کیونکہ صوبےتعاون نہیں کر رہے تھے۔ بعد میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ تمام صوبوں سے مشاورت کے بعد پالیسی تشکیل دی جائے جس کا نفاذ لازمی بنایا جائے اور نوٹیفکیشن کے اجرا اور عملدرآمد کے بعد اس میں کسی کو استثنیٰ نہ دیا جائے۔ ایک سال سے بھی زائد وقت تک صوبوں کے ساتھا طویل مشاورتاور غور و فکر کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے گزشتہ سال اگست میں پی اے ایس اور پی ایس پی کیلئے روٹیشن پالیسی کا نوٹیفکیشن جاری کیا اور اعلان کیا کہ اس پر یکم جنوری 2021 سے عملدرآمد شروع کیا جائے گا۔ گریڈ 22 کے گزشتہ بیچ کو ترقی دیتے ہوئے، حکومت نے گریڈ 21 کےایسے افسران کی ترقی کے کیسز موخر کر دیے جو اپنے ڈومیسائل کے صوبے یا پسند کے صوبے سے باہر نہیں جا رہے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر افسران کا تعلق لاہور سے ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ، ان سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ چونکہ وہ ترقی کیلئے موزوں ہیں لیکن ان کی ترقی کے معاملاتاس لیے موخر کیے گئے ہیں کیونکہ وہ اپنے ڈومیسائل کے صوبے سے باہر خدمات انجام نہیں دے رہے۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنا دیگر صوبوں یا مرکز میں کیا جانے والا ٹرانسفر قبول کریں جس کے بعد یقینی بنایا جائے گا کہ مستقبل میں انہیں ترقی ملے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہلاہور سے تعلق رکھنے والے کچھ افسران نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ نجی وجوہات کی بنا پر لاہور سے باہر خدمات انجام نہیں دے سکتے اور اسی لیے وہ اعلی ترین گریڈ 22 میں اپنی ترقی کی بھی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ روٹیشن پالیسی میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ اسپر یکم جنوری 2021 سے عمل کیا جائے گا اور کسی کو استثنی نہیں ملے گا۔ یہ پالیسی افسران کی ترقی سے بھی جڑی ہے کیونکہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پی اے ایس اور پی ایس پی افسران تمام حکومتوں میں مختلف گریڈز پر رہتے ہوئے کام کریں اورساتھ ہی افسران کی جانب سے حکومتوں پر دبائو ڈال کر برسوں تک ایک ہی حکومت میں کام کرنے کی کوششوں کا بھی خاتمہ ہو سکے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ معیاری استثنیٰ جیسا کہ نجی مشکلات پریشانیاں اور شریک حیات کے مقام ، جو ملک بھر کے مختلف کیڈرز اور محکموں میںمعمول بن چکے ہیں، پی اے ایس اور پی ایس پی گروپ میں کسی کو بھی ایسا استثنی حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ پی اے ایس اور پی ایس پی افسران پر شادی شدہ جوڑوں کیلئے مختص پالیسی (ویڈ لاک پالیسی) کا بھی اطلاق نہیں ہوگا۔ اس پالیسی کےتحت پی اے ایس اور پی ایس پی گروپ کے افسران کے ٹرانسفر یا پوسٹنگ کیلئے درج ذیل کیٹگریز بنائی گئی ہیں۔ 1) پہلی ایلوکیشن، اور مخصوص تربیتی پروگرام کے بعد بعد سروس افسر کے ڈومیسائل کے صوبے سے باہر۔ 2) گریڈ 17 تا 19 کے مرد افسران کیلئے سخت علاقوں میںلازمی سروس۔ 3) ایک ہی جغرافیائی مقام پر مسلسل خدمات انجام دینے والے افسران کیلئے روٹیشن۔ 4) تمام حکومتوں میں، ہر گریڈ میں افسران کی کمی کیلئے ریشنلائزیشن کی جائے گی جس کیلئے کم سے کم روٹیشن والے افسر کو ایسی حکومت میں ٹرانسفر کیا جائے گا جہاںاس گریڈ میں قلت پائی جاتی ہے۔ گریڈ 20 سے کم کسی بھی افسر کو مسلسل 10 سال تک کسی ایک حکومت میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ رخصت، تربیت اور غیر ملکی پوسٹنگ کے عرصے کو بریک نہیں سمجھا جائے گا۔ پالیسی کے تحت لازمی طور پر اگر کوئی افسر روٹیشن سےگزرا تو مرد افسران اپنی گزشتہ دس سال کی خدمات والے صوبے میں نہیں جا سکے گا تاوقتیکہ وہ اپنی سابقہ دس سالہ پوسٹنگ کی حکومت کی جغرافیائی حدود سے باہر دو سال تک کام نہ کر لے۔ موجودہ افسران جنہوں نے کسی ایک حکومت میں دس یا اس سے زیادہ سال کے عرصہ تکخدمات انجام دی ہیں؛ انہیں تین مراحل میں دیگر حکومتوں میں ٹرانسفر کیا جائے گا، یہ تین مراحل 6 ماہ پر مشتمل ہوں گے اور اس میں شروعات ایسے افسروں سے کی جائے گی جن کا پوسٹنگ کا عرصہ سب سے زیادہ ہے۔ خواتین افسران کو دوسرے یا تیسرے مرحلے میں ٹرانسفر کیاجائے گا۔ کسی بھی حکومت میں افسران کی قلت کو دور کرنے کیلئے، افسران کو دس سال مستقل خدمات انجام دینے کی پالیسی سے پہلے ہی ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے اور ایسا افسر پہلے ٹرانسفر ہوگا جس کی روٹیشن کم سے کم رہی ہو۔ کسی بھی مرد یا خاتون افسر کو گریڈ 21 میں پروموشن کا اہل نہیں سمجھا جائے گا اگر اس نے مستقل ایک ہی حکومت میں 10 سال کام کیا ہو اور تاوقتیکہ اسے اس حکومت سے باہر ٹرانسفر کیا گیا ہو۔ یہ شق پالیسی کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے دو سال بعد قابل اطلاق سمجھی جائے گی۔

راولپنڈی: مضر صحت دودھ بیچنے پر2 دکانیں سیل

0


پنجاب فوڈ اتھارٹی نے راول پنڈی میں مضر صحت دودھ بیچنے پر 2 ڈیری ساپس کو سیل کردیا۔

پنجاب فوڈ اتھارٹی کے حکام کے مطابق سیل کی گئی دکانوں میں مضر صحت دودھ اسٹور اور فروخت کیا جا رہا تھا۔ دوسری جانب ناقص رنگوں اور کیمیکلز سے مٹھائیاں بنانے پر بھی مٹھائیوں کی دکانیں سیل کردی گئی ہیں۔

متعلقہ ادارے کی جانب سے دکان داروں پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے، جب کہ ناقص انتظامات کی وجہ سے 10 فوڈ پوائنٹس پر بھی بھاری جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔

معمولی نقائص پر 66 فوڈ پوائنٹس کو وارننگ نوٹسز جاری کیے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ اس سے قبل بھی ضلعی انتظامیہ اور فوڈ اتھارٹی کی جانب سے جڑواں شہروں میں کارروائی کے دوران متعدد دکانوں ، ریسٹورنٹس اور اسٹورز کو خلاف ورزی پر سیل کیا گیا ہے۔ عالمی وبا کرونا کے باعث حکومت کی جانب سے سختی سے ایس او پیز پر عمل درآمد کی ہدایت کی گئی ہے۔

کراچی میں ٹیسٹ میچ: 9دن کیلئے متعدد سڑکیں بند

0


پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان کرکٹ میچ کی سیکورٹی سے متعلق ریہرسل کی گئی، نیشنل اسٹیڈیم آنے والے راستے بند کردیے گئے جس کے باعث شہر کے کئی مقامات پر ٹریفک کی روانی شدید متاثر رہی۔

پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان ہونے والے کرکٹ میچ کے حوالے سے سیکورٹی ریہرسل کا انعقاد گزشتہ روز ہوا جبکہ اس موقع پر نیو ٹاؤن، حسن اسکوائر، کارساز اورگلشن جمال سے نیشنل اسٹیڈیم جانے والے تمام راستے مکمل طور پر بند کردیے گئے۔

نیشنل اسٹیڈیم جانے والے راستوں پر بندش کے باعث راشد منہاس روڈ، یونیورسٹی روڈ سمیت شارع فیصل پر ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہے۔

واضح رہے کہ شہر قائد میں جنوبی افریقہ اور پاکستان کے درمیان پہلے ٹیسٹ میچ سے قبل نیشنل اسٹیڈیم سے ڈالمیا، یونیورسٹی روڈ سے شاہ سلیمان روڈ اور آغا خان اسپتال جانے والے راستے 21جنوری بروز جمعرات (آج) سے 30 جنوری تک صبح ساڑھے 11بجے سے شام ساڑھے 6بجے تک بند رہے گا۔ شہری آمد و رفت کیلیے کے متبادل راستوں کا انتخاب کرسکتے ہیں۔

دونوں ٹیموں کے درمیان پہلا ٹیسٹ 26جنوری کو کراچی کے تاریخی  میں کھیلا جائے گا۔

یاد رہے کہ سن1995 سے اب تک دونوں ممالک کے درمیان11ٹیسٹ سیریز کھیلی جاچکی ہیں۔ جس میں جنوبی افریقہ نے 7میں کامیابی حاصل کی جبکہ پاکستان صرف مصباح الحق کی قیادت میں صرف ایک سیریز میں کامیابی حاصل کرسکا ہے۔

آئی پی پیز بجلی کی قیمت میں کمی پر رضامند

0


آئی پی پیز کے ساتھ نظرثانی معاہدوں میں اہم پیشرفت ہوگئی، 3 نجی پاور پلانٹس منافع کی شرح میں 1.45 پیسے فی یونٹ تک کمی پر رضا مند ہوگئے، نیپرا کو درخواستیں بھی دے دی گئیں۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی تابش گوہر نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ آئی پی پيز کے ساتھ معاہدے آخری مراحل ميں ہيں، نئے معاہدوں سے آئندہ 20 سالوں ميں 836 ارب روپے کی بچت ہوگی، چند سال میں بجلی ایک سے 2 روپے فی یونٹ سستی ہوگی۔

تازہ اطلاعات کے مطابق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے مطابق قائداعظم سولر کمپنی نے منافع کی شرح میں 1.45 پیسے فی یونٹ کمی کیلئے درخواست جمع کرادی ہے جبکہ قائد اعظم تھرمل کمپنی نے 9 پیسے اور پنجاب تھرمل پاور پلانٹ نے منافع کی شرح میں 7 پیسے فی یونٹ کمی کی درخواست دی ہے۔

نیپرا نے تینوں پاور کمپنیوں کی درخواستیں سماعت کیلئے منظور کرلیں، کارروائی 27 جنوری کو اسلام آباد میں ہوگی۔

واضح رہے کہ حکومت نے ملک بھر میں بجلی کی قیمت میں ایک روپے 95 پیسے فی یونٹ تک اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب نے اسلام آباد میں اسد عمر اور تابش گوہر کے ہمراہ نیوز کانفرنس میں بجلی کی قیمت میں اضافے کا ذمہ دار مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومت کو قرار دیا تھا۔

’’صابن، شیمپو اورمشروبات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں ‘‘ سرخ مرچ پائوڈر کی قیمت میں فی کلو 500روپے کا اضافہ کر دیا گیا

0


مکوآنہ  مہنگائی کے طوفان سے شہریوں کو محفوظ رکھنے کی آخری امید بھی ٹوٹ گئی، گھی کے بعد اب یوٹیلیٹی اسٹورز پر مرچ پاوڈر، مختلف اچار، مشروبات، مصالحہ جات اور دیگر اشیائے ضروریہ مزید مہنگی ہوئیں تو عوام کی چیخیں نکل گئیں۔تفصیلات کے مطابق مہنگائی کے ستائے عوام جائیں تو جائیں کہاں، سستی اشیائ￿ اشیاء ڈھونڈنے کے لئے گھر سے نکلے یوٹیلیٹی اسٹورز کیجانب لیکن حکومت نے وہاں بھی مہنگائی کا بم گرا دی نئے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن کے مطابق 100 گرام مرچ پاوڈر کی قیمت میں 50 روپے، مختلف اچار کے ڈبوں کی قیمت

میں 60 روپے، مشروبات کی بوتل 30 روپے، مصالحہ جات 40 روپے، شیمپو کی بوتل 11 روپے، کپڑے دھونے کا پاوڈر کا پیکٹ 5 روپے مہنگا کر دیا گیا ھے جس کا اطلاق بھی فوری طور پر ہو گا۔شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے یوٹیلٹی اسٹورز پر اشیاء کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کر کے عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔قبل ازیں یوٹیلیٹی اسٹورز پراشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ نہ رک سکا ۔ ذرائع کے مطابق یوٹیلیٹی اسٹورز پر سبسڈائزڈ ریٹس پر ملنے والی اشیاء دستیاب ہی نہیں، ملک بھر کے یوٹیلیٹی اسٹورز پر آٹا، دالیں، چاول، چینی اور گھی دستیاب نہیں، انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے عوام کو سبسڈائزڈ اشیاء کی فراہمی میں مشکلات،ہیڈ آفس انتظامیہ اسٹورز سے سبسڈائزڈ اشیاء کی بلیک مارکیٹ میں فروخت رکوانے میں بھی ناکام ،ذرائع کے مطابق انتظامیہ کی نااہلی اور آپس کے اختلافات سے ادارے کی کارکردگی بری طرح سے متاثر ہوئے ۔ذرائع کے مطابق درآمدی چینی آئندہ چند روز میں یوٹیلیٹی سٹورز کو فراہم کی جائے گی ، درآمدی چینی کی آمد سے صارفین کو فراہمی کا عمل بہتر ہوجائیگا۔

حکومت نے 2سال میں کتنے ارب ڈالرز کا بیرونی قرضہ لیا ؟ تفصیلات جاری

0


لاہور پاکستان کو جولائی سے دسمبر تک بیرونی قرض اور امداد کی مد میں 5 ارب 68 کروڑ ڈالر موصول ہوئے جبکہ 2 ارب 92 کروڑ ڈالر سے زیادہ کا قرضہ ادا کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کو 6 ماہ کے دوران 5 ارب 68 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کے بیرونی وسائل حاصل ہوئے جبکہ چین نے سیف ڈیپازٹ کی مد میں ایک ارب ڈالر فراہم کئے۔اقتصادی امور ڈویژن کے مطابق موجودہ مالی سال 12 ارب 23 کروڑ ڈالر کے تخمینے میں سے اب تک 46 فیصد فنڈز منتقل ہوچکے ہیں، ایک ارب 63 کروڑ ڈالر بجٹ سپورٹ جبکہ

75 کروڑ 40 لاکھ ڈالر ترقیاتی منصوبوں کیلئے ملے۔اے ڈی بی نے ایک ارب 12 کروڑ ڈالر جبکہ عالمی بینک نے 74 کروڑ40 لاکھ ڈالر فراہم کردیئے، امریکہ نے 7 کروڑ، فرانس 3 کروڑ 43 لاکھ ڈالر جبکہ چین نے 9 کروڑ 54 لاکھ ڈالر کا قرض دیا۔حکومت نے 6 ماہ کے دوران 10 ارب 36 کروڑ ڈالر واجب الادا قرض میں سے 2 ارب 92 کروڑ 40 لاکھ ڈالر واپس کردیئے۔

اب پاکستانی نوجوانوں کیلئے فیس بک سے پیسہ کمانا آسان ہو گا ، بڑی خوشخبری سنا دی گئی

0


پشاور   خیبرپختونخوا حکومت نے فیس بک سے پاکستان میں منیٹائزیشن آن کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان فیس بک سے پیسے کما سکیں۔تفصیلات کے مطابق خیبرپختونخوا حکومت نے فیس بک سے پاکستان میں منیٹائزیشن آن کرنے کے لیے رابطہ کرلیا ، ضیاء اللہ بنگش نے ریجنل ہیڈ فیس بک سے رابطہ کیا۔نجی ٹی وی اے آر وائے کے مطابقضیاء اللہ بنگش نے کہا ہمارے نوجوانوں اور آئی ٹی انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کی جانب سے پاکستان میں فیس بک کی منیٹائزیشن آن کرنے کا مطالبہ کیا گیا جس کے بعد وزیراعلیٰ

خیبرپختونخوا محمود خان کی ہدایت پر فیس بک سے رابطہ کیا۔مشیر سائنس و انفارمیشن ٹیکنالوجی خیبرپختونخوا کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ یوٹیوب کی طرح فیس بک بھی پاکستان میں منیٹائزیشن آن کرے تا کہ ہمارے نوجوان اور آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ لوگ فیس بک سے پیسے کما سکیں۔انھوں نے کہا کہ ہمارے نوجوان سوشل میڈیا پر پاکستان کا ایک بہتر امیج پروموٹ کر رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان فیس بک سے پیسے کما سکیں اور اس جدید دور میں یہ ان کے لیے آمدنی کا زریعہ بنے۔ضیاء اللہ بنگش کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے فیس بک کی منیٹائزیشن آن کرنے کے لیے باقاعدہ اقدامات شروع کر دیے انشاءاللہ جلد ہمارے نوجوانوں کو خوشخبری ملے گی، اور فیس بک ہمارے نوجوانوں کے لیے پیسے کمانے کا زریعہ بنے گا۔اس اقدام سے پاکستان کے سیاحتی مقامات کی بھی بین الاقوامی سطح پر پروموشن ہو گی اور پاکستان کا ایک بہتر امیج پروموٹ ہو گا جبکہ پاکستان کی معیشت پر بھی مثبت اثر پڑے گا اور بہتر ہو گی۔

شاہ رخ اور دپیکا کی فلم کے سیٹ پر گالم گلوچ اور ہاتھا پائی

0


ممبئی  شاہ رخ خان کی فلم ’پٹھان‘ کے دوران ہدایت کار اور معاون ہدایت کار کے درمیان تلخ کلامی، گالم گلوچ اور ہاتھا پائی کے باعث فلم کی شوٹنگ روک دی گئی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بالی وڈ کنگ شاہ رخ خان اور دپیکا پڈوکون کی فلم ’پٹھان‘ کے سیٹ پر ہدایت کار سدھارتھ آنند اور معاون ہدایت کار کے درمیان تلخ کلامیاور ہاتھا پائی کے باعث شوٹنگ روک دی گئی۔ہوا کچھ یوں کہ فلم پٹھان کے ہدایت کار سدھارتھ آنند شوٹنگ کے دوران اپنے کچھ اصولوں کے ساتھ کام کرنے کے عادی ہیں لہذا فلم کی شوٹنگ

کے دوران تمام افراد کے موبائل فون الگ جگہ پر رکھ دیے جاتے ہیں تاہم معاون ہدایت کار نے سدھارتھ آنند کی درخواست کو اہمیت نہیں دی، سدھارتھ نے معاون ہدایت کار کا یہ عمل کچھ دیر برداشت کرنے کے بعد انہیں فون رکھنے کا کہا جس پر بات تلخ کلامی تک پہنچ گئی تاہم دیگر عملے نے معاملہ ختم کرادیا۔معاملہ اس وقت ہاتھا پائی تک جا پہنچا جب معاون ہدایت کار نے ایک بار پھر سدھارتھ آنند کو گالیاں دینا شروع کیں جس کو سن کر سدھارتھ آگ بگولہ ہوگئے اور معاون ہدایت کار کو تھپڑ دے مارا جس پر معاون ہدایت کار نے بھی سدھارتھ کو تھپڑ ماردیا، واقعہ کے بعد فلم کی شوٹنگ روک دی گئی جب کہ معاون ہدایت کار کو بھی نوکری سے نکال دیا گیا۔دوسری جانب بالی وڈ اداکار ورون دھون کی ان کی دوست نتاشا دلال کے ساتھ شادی کی تاریخ کا باضابطہ اعلان کردیا گیا ہے۔ورون دھون کے چچا نے بھتیجے کی شادی کی تاریخ کا اعلان کیا، ورون دھون کے چچا اور اداکار انیل دھون نے تصدیق کی ہیکہ ورون کی شادی 24 جنوری کو ہی ہوگی۔چند روز قبل بھی بھارتی میڈیا نے خبر دی تھی کہ ورون اور نتاشا ریاستمہاراشٹر کے علی باغ میں 24 جنوری کے دن شادی کریں گے تاہم خاندانی ذرائع سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی تھی۔دونوں کے اہل خانہ گزشتہ کئی دنوں سے شادی کی تیاریوں میں مصروف ہیں جب کہ کورونا وائرس کی وجہ سے صرف مخصوص لوگوں کو ہی دعوت دی گئی ہے۔

یاسر نواز نے رات گئے شوٹنگ کے دوران پیش آئے پراسرار واقعے کی کہانی بتادی

0


کراچی  پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کے معروف اداکار و ہدایتکار یاسر نواز نے ماضی میں پیش آنے والی خوفناک کہانی شیئر کی۔نجی ٹی وی چینل کے شو میں گفتگو کرتے ہوئے یاسر نواز نے بتایا کہ ایک ڈرامے کی شوٹنگ کے لیے جب وہ کراچی میں تین تلوار کے راستے میں آنے والی ایک خستہ حال عمارت میں گئے تو وہاں(عمارت کا) گارڈ خاصا پراسرار محسوس ہوا۔یاسر نے بتایاکہ چوکیدار سے جو بھی سوال کیا جاتا وہ اس کا جواب 2 سے 4 سیکنڈ بعد دیتا۔انہوں نے کہا کہ کیونکہ شوٹ کیے جانے والے سین رات کے تھے تو

ہم نے منصوبہ بنایا کہ رات 10 بجے سے صبح 5 بجے تک شوٹ کیے جائیں، جب ہم عمارت میں داخل ہوئے تو مجھے اور میری ٹیم کو ایک عجیب سی وحشت محسوس ہوئی۔یاسر نواز نے مزید بتایا کہ رات کے30: 12 کے بعد جب میری نظر یونہی اوپر کی جانب پڑی تو میں نے دیکھا کہ سفید رنگ کا سایہ جس کے کندھے بھی نظر آرہے ہیں لیکن چہرہ نظر نہیں آرہا کمرے میں جھانک رہا ہے، جب میں نے اپنی ٹیم کے ایک لڑکی سے کہا کہ اوپر دیکھو کچھ نظر آرہا ہے تو اس نے کہا کہ سر میں آپ سے پہلے وہیں دیکھ رہی تھی ،ایسا لگ ہے جیسے کوئی جھانک رہا ہے۔یاسر کے مطابق میں نے ان سے کہا کہ خاموش رہو کیونکہ اگر ہم نے شور مچایا تو اداکار بھی شور مچائیں گے اور سین شوٹ نہیں کریں گے لیکن میری نظریں اوپر ہی تھیں مگر میں نے دیکھا وہ سایہ آہستہ آہستہ پیچھے جاتا رہا اور ختم ہوگیا۔اد اکار کا کہنا تھاکہ میں اوپر ہی دیکھتا رہا لیکن کچھ دیر بعد وہی سایہ مجھے سیدھا کھڑا ہواکمرے کی دوسری کھڑکی میں نظر آیا اور پھر جب ہم نے شوٹ کیلیے کمرا تبدیل کیا تو وہ سایہ وہاں بھی ہمیں کھڑا دکھائیدیا، اس کے بعد ٹیم میں شامل ایک اور شخص نے با آواز بلند کہا کہ مجھے بھی یہی سایہ نظر آرہا ہے، اب میں اور میری ٹیم ڈر گئے تھے، میں نے اپنے ساتھ کھڑے شخص سے کہا یہاں شوٹ مناسب نہیں ہمیں نکلنا چاہیے۔ہدایتکار کا کہنا تھا کہ مجھے میری ٹیم کے ایک شخص نے یہاں تک کہا اگر سر آپ اجازت دیں تو میں لائٹس کا رخ اس سایے کی طرف کرتا ہوں اس سے یہ ہوگا جو بھی شے ہے فوراً لائٹس اس کے منہ پر پڑے گی لیکن یاسر کے مطابق انھوں نے اسے ایسا کرنے سے منع کردیا ۔