Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the eventin domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/todaysne/domains/todaysnews.pk/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114 کورونا نے سب کو مسلمان بناد یا۔۔۔۔۔بھارت میں لوگ دھڑا دھڑ مسلمان ہونے لگے
آج کا بھارت کشمکش کی ایک ایسی راہ پر چل رہا ہے جس کے ایک طرف بی جے پی کا کٹر پن اور مذہبی انتہا پسندی ہے جو استدلال کی بجائے طاقت کی زبان پر یقین رکھتی ہے جبکہ دوسری طرف بھارت بھر کے طالب علم ہیں جو سوچ اور دلیل کی طاقت سے آراستہ ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کے حوالے سے شدید فکر مندی کا شکا ر ہیںاگرچہ بھارتی میڈیا گھٹنے گھٹنے تک تعصب میں ڈوبا اور بکا ہوا ہے تا ہم پھر بھی بھارت بھر میں سڑکوں پر ہونے والے احتجاج کو روکنا یا اس کی کوریج نہ دکھانا‘ اب بھارتی میڈیا کے لیے بھی ممکن نہیں ہے ۔مودی حکومت کی
طرف سے بھارت میں شہریت کے متعلق پاس کیے گئے نئے قانون سی اے اے اوراین آر سی کے رد عمل میں ان دنوں پورے ملک میں احتجاج جاری ہے جس میں سب سے زیادہ کلیدی کردار طالب علموں کا ہے اس محاذ پر بطور خاص علی گڑھ یونیورسٹی ،جامعہ اسلامیہ ملی دہلی اورجواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلباء قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں ان طلباء کا موقف ہے کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے جس کی بنیادیں رنگ ،نسل اور مذہب سے بالا خطوط پر استوار کی گئی تھیں اس لیے مسلمان ،سکھ ،ہندواور عیسائی سب بھائی بھائی ہیں اور یہی بھارت کا حسن ہے جامعہ پر حملہ آور حکومتی عناصراور پولیس کے خلاف جس طرح جواہر لعل نہرو کے ہزاروں طلباء نے احتجاج کیا ہے اس کی مثال بھارت کی ستر سالہ تاریخ میں کہیں بھی نہیں ملتی لیکن ستم تو یہ ہے کہ بی جے پی کی ذیلی طلباء تنظیم کے مسلح اور نقاب پوش غنڈوں کے ہاتھوں یونیورسٹی یونین کی صدر ایشاگھوش شدید طور پر زخمی ہونے کے باجود اپنے خلاف ہونے والی ایف آئی آر کے نتیجے میں آج مدعی کی بجائے الٹا ملزم بنا دی گئی ہیں جس پر بھارت کے بیشتر تعلیمی اداروں میں شدید رد عمل دیکھنے میں آرہا ہے ۔ یہ بھی پہلا موقع ہے کہ مسلم خواتین اپنے گھروں سے باہر نکل کر گزشتہ تین ہفتوں سے شاہین باغ دہلی میں دن رات بیٹھی ہوئی ہیں جن سے ہمدردی کے اظہار کے لیے پورے بھارت سے زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے اہم لوگ دھڑا دھڑ آرہے ہیں جس پر بھارتی اشرافیہ اور مقتدر طبقات کو نا صرف شدید پریشانی ہو رہی ہے بلکہ انہیں یقین ہی نہیں آرہا کہ ہر وقت پردے میں رہنے والی اور خوف کا شکار مسلمان خواتین کس طرح بغیر کسی اپنے مرد رہنما کے شاہین باغ میں اتنے لمبے عرصے سے خیمہ زن ہیں؟ انہیں ڈر ہے کہ اگر بھارت میں یہ روایت پڑگئی تو وہ دن دور نہیں جب مسلمان بھی اپنا حقمانگنا سیکھ لیں گے آج خودہندو طلباء کھلے عام کہہ بھی رہے ہیں اور نعرے بھی لگارہے ہیں کہ مودی حکومت بھارت کو توڑنے جا رہی ہے کیونکہ یہ سیکولر ازم کی بنیادیں گرا رہی ہے جواہر لعل نہرو کے طلباء کے ساتھ ہمدردی کے لیے جانے والی بالی ووڈ کی معروف اداکارہ دپیکا پڈوکون کی حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم کے بائیکاٹ کا اعلان کر کے بی جے پی اپنی عدم برداشت کی پالیسی کو عملی طور پر ثابت کر رہی ہے ماضی میں بھی بھارت میں یہی کچھ ہوتا رہا ہے جس کا نشانہ مسلمان اداکا ر ہوا کرتے تھے جو اسی وجہ سے آج خاموش ہیںاب کی بار ایک ہندو اداکارہ کو انتہا پسندوں نے نشانے پر لے رکھا ہے بھارت بھر میں آج طالب علم آزادی آزادی کے نعرے لگا رہے ہیں فیض احمد فیض کی نظم ہم دیکھیں گے‘ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘کی گونج آج پورے بھارت میں سنائی دے رہی ہے خود ہندو طالب علم رہنما پلوامہ کے واقعہ کو مودی حکومت کا الیکشن جیتنے کے لیے ایک ڈرامہ قرار دے رہے ہیں اور یہ وہی بات ہے جو پاکستان اس واقعہ کے حوالے سے پوری دنیا کو بتاتا چلا آرہا ہے اور جس کی تصدیق گھر کے ایک بھیدی کی حیثیت سے آج خود بھارت کے طلباء رہنما میڈیا پر کر رہے ہیںپاکستان دشمنی میں ساری حدیں پار کر جانے والے بھارتی میڈیا کو آج خود بھارتی عوام “گودی میڈیا “سے تعبیر کر رہی ہے این ڈی نیوز چینل کو چھوڑ کر پورا بھارتی میڈیا مودی حکومت کا ساتھ دے رہا ہے لیکن اس کا فائدہ ہو نے کی بجائے بی جے پی کو الٹا بھارت بھر میں آج نفرت کا سامنا ہے بی جے پی کے غنڈے آج بدمعاشی کر نے کی بجائے اپنے گھروں میں چھپ کر بیٹھنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور خود مودی اور امت شاہ کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ انہوں نے جو چال ہندو اور مسلمانوں میں مزید نفرت پیدا کر نے کے لیے چلی تھی وہ الٹی پڑگئی ہے اور آج ہندو طلباء مسلمانوں کے ترجمان بن کر قوم کے سامنے آگئے ہیں یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جس کا دو تین ماہ قبل تک تصور بھی ممکن نہیں تھا جس رفتار اور شدت کے ساتھ بھارت میں جاری احتجاج آگے بڑھتا ہوا ایک تحریک کی شکل اختیارکرتا چلا آرہا ہے اس سے یہ امید ہو چلی ہے کہ وہ دن دور نہیں جب پورے بھارت میں بی جے پی کی نفرت کی سیاست کا سورج غروب ہو جائے گا اور گزشتہ سات عشروں سے خوف کے ماحول میں زندگی گزار رہے بھارتی مسلمان ، دلت اور دیگرچھوٹی چھوٹی قوموں کے بھارتی ہندو بھی سکھ کا سانس لے سکیں گے۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمین