Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the eventin domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/todaysne/domains/todaysnews.pk/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114 سوڈان میں مظاہرے: انٹرنیٹ پر پابندی عائد
خرطوم: سوڈان میں فوجی بغاوت کے خلاف بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں سے قبل انٹرنیٹ پر پابندی لگا دی گئی ہے، ملک میں 25 اکتوبر کے بعد سے مظاہرے جاری ہیں۔
بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سیکیورٹی فورسزکی جانب سے دارالحکومت خرطوم اور شہر کو مضافاتی علاقوں سے ملانے والے اہم پلوں اور راستوں کو بند کر دیا گیا تھا۔ اس موقع پر خرطوم کے گورنر نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ قانون توڑنے اور افراتفری پھیلانے والوں سے سیکیورٹی فورسز کے ذریعے سختی سے نمٹا جائے گا۔
25 اکتوبر کے بعد پیدا ہونے والے حالات کے تناظر میں بڑے پیمانے پر عوام فوج مخالف مظاہروں کو منظم کرنے کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کررہے تھے، مزید یہ کہ ہفتے کے روز ہونے والے مظاہروں کے لیے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے مظاہروں کی منصوبہ بندی بھی کی جا رہی تھی۔
یاد رہے کہ سوڈان کی فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان نے سویلین رہنما وزیر اعظم عبداللہ حمدوک کو ان کے گھر میں نظر بند رکھا جس کے بعد ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا تاہم 21 نومبر کو وزیر اعظم کو دوبارہ بحال کر دیا گیا۔
اس اقدام کو عبداللہ حمدوک کے بہت سے جمہوریت پسند حامیوں کو ان سے الگ کرتے ہوئے اسے فوجی جنرل کی بغاوت کے لیے جواز فراہم کرنے کے طور پر مسترد کر دیا ہے۔
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ فوج کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں جبکہ مظاہروں میں فوجیوں کو دوبارہ اپنی بیرکوں میں واپس جانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
خرطوم کے گورنر نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ سرکاری عمارتوں کے قریب جانا یا عمارتوں کو کسی قسم کا نقصان پہنچانا قابل سزا جرم ہے اور ایسے افراد سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
سوڈان میں موجود ڈاکٹروں کی جانب سے بنائی گئی ایک کمیٹی کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ فوج کے قبضے کے بعد سے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے براہ راست گولیاں برسانے اور آنسو گیس کے شیل پھینکنے کے باعث کم از کم 48 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔