اسلام آباد سابق چیئر مین ایف بی آر شبرزیدی نے کہا ہے کہ بیوروکریسی میں سب سے زیادہ کامیاب وہ ہے جو کام نہ کرے،100کاموں میں 5غلط بھی ہو سکتے ہیں ،95 پر شاباشی نہیں ملے گی،سوچتا ہے 5پر ساری زندگی نیب کو بھگتتا رہوں گا،مالی بے ضابطگیوںکی تفتیش ،عدالتوں ،بیوروکریسی اور فوج کا کام نہیں ،آڈٹ کرنے والے پروفیشنل کا ہے،ایف بی آر،ایس ای سی پی ،ایف آئی اے ،نیب اور اسٹیٹ بینک کے فنانشل کرائمز کے سیکشن بند کرکے فنانشل ریگولیٹری بنانی چاہئے،نیا ہیڈ آفس اسلام آباد سے دور ہو،میری اس تجویز میں رکاوٹ عمران خان نہیں بلکہ
معاشرہ اور سسٹم بنا،میں نے پاناما میں بھی ان کی مدد کی، کاروباری یا بیورو کریٹس نہیں چاہتے ان کے مالیاتی معاملات پروفیشنل ایکسپرٹ دیکھے ،پاکستان کے بجٹ کا آغاز منفی سے ہوتا ہے، ریونیو سروس کی تجویز پر ایف بی آر کے تمام ملازمین نے مخالفت کی ،عشرت حسین سے بھی اختلاف رہا،سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اس لئے کم رکھی گئیں کہ قابل لوگ یہاں نہ آئیں ،کرپشن چلتی رہے،پاکستان کابدترین سال 2018 رہا ،عمران خان نے کوئی معاشی غلطی نہیں کی،پاکستان کو ریکوڈک جیسی کانوں کی مائیننگ میں کم از کم 50 سال لگیں گے،یہ کام باہر کی کوئی کمپنی ہی کرسکتی ہے، زرداری اورنواز شریف کےوہی کاروبار ہیں جن میں ڈاکومینٹیشن نہیں ہے،اس میں اسٹیل رولنگ مل ،شوگر ،پولٹری ،ریئل اسٹیٹ شامل ہیں۔خریداری پر شناخت ظاہر نہ کرنا کاروباری طبقے کی بدترین بددیانتی ہے۔میں پراپرٹی کی ویلیو مارکیٹ ویلیو پر لے آیا۔ عالمی عدالتوں میں کیس جیتنے کیلئے کرپشن ثابت کرناہوتی ہے،مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کو تنقید کے علاوہ کبھی کوئی پلان پیش کرتے نہیں دیکھا، لوگوں نے مجھ پر مفادات کے ٹکراو کاالزا م لگایا میں نے کبھی ٹیکس چور کمپنی کیلئے خدمات پیش نہیں کیں ۔میں نے کہا پاکستان ریونیو سروس بنائی جائے جس کی وزیراعظم نے بھیمخالفت نہیں کی لیکن ایف بی آر کے بائیس ہزار ملازمین میں سے کسی ایک نے بھی رضامندی کااظہار نہیں کیا ۔اس حوالے سے عشرت حسین سے بھی اختلاف رہا میرا خیال تھا کہ ایف بی آر کو اسٹیٹ بینک کی طرز پر چلانا چاہئے ۔عشرت حسین کی سرکاری نوکری کی وفاداری ختم نہیں ہوئی ۔عشرت حسین سے کہتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ تنخواہ تو سرکاری نوکری جتنی دی جائیں اورپیشے کے بہترین ماہرین ادارے میں کام کریں۔ہمارا مسئلہ یہی ہے ۔سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اس لئے کم رکھی گئیں تاکہ قابل لوگ یہاں نہ آئیں اورکرپشن کا بازار چلتا رہے ۔تنخواہیں جانبوجھ کر کم رکھی گئی ہیں۔ روزنامہ جنگ کی رپورٹ کے مطابق انہوںنے ان خیالات کا اظہار ایک انٹرویو میں کیا۔شبرزیدی نے کہا کہ چالیس پچاس لاکھ خوردافروش ہیں لیکن ایک بھی رجسٹرڈ نہیں ۔نظام نہیں چاہتا کہ ٹیکس جمع ہو ۔ٹیکس آمدنی کی بنیاد پر جمع نہ کرانا سب سے بڑیخرابی ہے ۔میں نے پراپرٹی کی ویلیو کو بڑھا دیا اور اسے مارکیٹ ویلیو پر لے آیا جس سے فلیٹ کی مارکیٹ ختم ہوگئی ۔ میں نے کمرشل امپورٹ کو ریٹیل پرائز پر کردیا جس سے انڈر انوائسنگ کی کمر ٹوٹ گئی پھر چین کی حکومت سے معاملات طے کئے ۔خریداروں کوکہا کہ شناخت ظاہرکریں،شناختی کارڈ کی شرط ختم کرنے کیلئے عمران خان پر بہت دباو تھا کراچی کے تمام بزنس مینوں نے کہا کہ شرط ختم کریں عمران خان نے مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا یہ شرط بالکل ٹھیک ہے جس پر عمران خان نے کہا کہ شرط نہیں ہٹا سکتے اسی لئے میں عمران خان کی حمایت کرتا ہوں ۔خریداری پر شناخت ظاہر نہ کرنا کاروباری طبقے کی بدترین بددیانتی ہے ۔بلاول بھٹو،مریم نواز،اسحاق ڈار ،مفتاح اسماعیل پاکستان کے تمام چیمبر میں سے کسی نے نہیں کہا کہ یہ شرط ٹھیک ہے اس سے بڑی منافقت نہیں ہے ۔یہ کسی کی ذات سے دشمنی کرتے ہیں اور پاکستان کے مفاداتداوپرلگا دیتے ہیں۔میں نے ٹیکسٹائل پر زیرو ریٹنگ ختم کی اب کہا جارہا ہے کہ فیصلہ واپس لیا جائے اس کی کہانی یہ ہے کہ پاکستان میں اس سے لوکل ٹیکسٹائل متاثر ہوتی ہے ۔ملک غلام کو پاکستان کی تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی انہوں نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا ،ایوب خان کےدور میں بھی کرپشن تھی لیکن کسی سیاسی شخصیت پر کرپشن کا الزام عائد نہیں ہوتا تھا ۔ deregulation of pakistan economyکے تحت protection of economic ordinance کاقانون 1992میں بنایا گیا جس سے منی لانڈنگ کی بنیاد پڑی اس قانون سے بدترین قانون پاکستان میں نہیں ہوسکتا ۔ایک قانون تھا کہ پاکستانی بیرون ملک اثاثےنہیں رکھ سکتے پھر یہ قانون کتابوں میں دب گیا ۔ملک میں آرگنائز کرپشن ہے ۔اسمگلرکہتے ہیں کہ اسمگلنگ ہمارا کاروبار ہے ۔عمران خان ایک دیانتدار اور سمجھدار انسان ہیں لیکن ان کی ٹیم بڑی ہے ان کی ٹیم پانچ سے چھ لوگوں کی ہونی چاہئے ۔پاکستان کا بدترین سال 2018کا تھا ،عمران خان نے کوئی معاشی غلطی نہیں کی ۔شبر زیدی نے کہاکہ میں نے اور میرے پارٹنر نے پاناما کیس میں عمران خان کی مدد کی تھی، سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھیں بنی گالہ کی جائیداد میں مکمل شفافیت ہے ، عمران خان نے بنی گالہ کی پراپرٹی فائنانس کی، یہ پراپرٹی جمائما خانکے نام تھی انہیں عمران خان پیسے دے چکے ہیں، ایک سال میں گوشہ نشین رہا ہوں، عمران خان کی شخصیت کا دوسرے پاکستانی سیاستدانوں سے موازنہ کیا جائے تو کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا،مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کو تنقید کے علاوہ کبھی کوئی پلان پیش کرتے نہیں دیکھا۔شبر زیدی کا کہنا تھا کہ ایف بی آر، ایس ای سی پی، نیب، ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک کے فائنانشل کرائم انویسٹی گیشن کے سیکشنز بندکر کے ایک فائنانشل ریگولیٹری اتھارٹی بنائی جائے جس کا ہیڈکوارٹر کراچی ہو، بلوچستان حکومت اور ریکوڈک کے درمیان معاہدہ میں قابلیت کا بڑا فرق تھا،ٹیتھیان دنیا کے بہترین وکیلوں کے ساتھ آئی اس کے مقابلہ میں حکومت بلوچستان کے پاس عالمی معاہدہ سمجھنے والے ماہرین نہیں تھے، سپریم کورٹ کو ریکوڈک کا معاہدہ منسوخ کرنے کے بجائے اس پر نظرثانی کرنے کا حکم دینا چاہئے تھا، ٹیتھیان ریکوڈک پر 258ارب ڈالرز خرچ کرچکی تھی،وہاں رہائش کیلئے فائیو اسٹار جیسی سہولیات بنائی گئی تھیں، پاکستان کو ریکوڈک جیسی کانوں کی مائننگ میں کم از کم پچاس سال لگیں گے، ریکوڈک سے مائننگ باہر کی کوئی کمپنی ہی کرسکتی ہے، ٹیتھیان سے بات کر کے دوبارہ کام شروع کرنے کا راستہ نکالا جاسکتا ہے۔ شبر زیدی نے کہاکہ بین الاقوامی معاملات میں مقدمات ہارنے کی وجہ وکیل نہیں ہیں، آپ کسی معاہدہ کی خلاف ورزی کریں گے تو بیرونی کمپنیاں ہرجانہ کا دعوی کریں گی وہاں وکیل کیا کرسکتا ہے، عالمی عدالتوں میں کیس جیتنے کیلئے کرپشن ثابت کرنا ہوتی ہے۔ شبر زیدی کا کہنا تھا کہ نواز شریفاور آصف زرداری اور نواز شریف کاروباری خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، آصف زرداری اور نواز شریف کے وہی کاروبار ہیں جن میں ڈاکومنٹیشن نہیں ہے اس میں اسٹیل رولنگ مل، شوگر، پولٹری، ریئل اسٹیٹ شامل ہیں ،پاکستان کے تمام کاروباری حضرات نے میری دی ہوئی ایمنسٹیاسکیم سے فائدہ اٹھایا انہیں بھی فائدہ لینا چاہئے تھا، میں سمجھتا ہوں کہ کاروباری پیسے اور نان کاروباری پیسے کو الگ کرنا ناممکن ہے، یہ حقیقت ہے کہ پاکستان سے پیسہ باہر گیا ہے۔ سابق ایف بی آر سربراہ شبر زیدی نے مزیدکہا کہ مالیاتی بے ضابطگیوں کی تفتیش کرنا فوجیوں کا کام نہیں،اگر ٹریس اینڈ ٹریک سسٹم آگیا تو ملک میں بہت سی جگہوں سے چوری ختم ہوجائے گی۔شبر زیدی نے کہا کہ پاکستان کی مالیات کے حوالے سے جتنی معلومات میرے پاس ہے وہ شائد پاکستان میں کسی کے پاس نہیں ہوگی میں نے چالیس برس گزارے میں اسٹیٹ بینک کے بورڈ میں بھی رہا اسٹاک ایکسچینج کا پانچ سال ڈائریکٹر رہا ہوں میں جو کچھ جانتا ہوں پاکستان میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔