اسلام آباد وفاقی حکومت نے براڈ شیٹ انکوائری کمیشن کے ٹی او آر بنادیئے ہیں اور براڈ شیٹ انکوائری کمیشن 1990 سے کرپشن کیسز کی تحقیقات کرے گا ۔اس کے علاوہ یہ کمیشن ٹرووانس ایل ایل سی ، براڈ شیٹ ایل ایل سی اور انٹرنیشنل اسیٹس ریکوری لمیٹڈ کےانتخاب اور تقرری کے علاوہ 2000 میں براڈ شیٹ وغیرہ کے ساتھ سمجھوتوں اور ان پر عمل درآمد کا بھی جائزہ لے گا ۔روزنامہ جنگ میں زاہد گشکوری کی شائع خبر کے مطابق کرپشن کیسز کی نشاندہی کے لئے حکومت نے حوالہ شرائط بھی طے کردیں ہیں تاکہ
گزشتہ 30 برسوں میں بیرون ممالک پاکستان کی لوٹی گئی دولت کی بازیابی کو ممکن بنایا جا سکے ۔دوسری جانب وزیراعظم کے مشیر داخلہ احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ براڈ شیٹ معاملے میں جو ادائیگی کی گئی وہ ماضی میں کی گئیں ڈیلز اور دئیے گئے این آر اوز کی قیمت ہے،دستاویز پبلک کئے بغیر شفافیت نہیں آسکتی،نواز شریف کی ایون فیلڈ پراپرٹی کی مد میں براڈشیٹ کوحصہ دیا گیا، 21.5میں سے 20.5ملین شریف خاندان کی مد میں ادا کرناپڑے جبکہ شون گروپ،شیر پا ودیگر کی مد میں صرف 1.08 ملین ڈالر ادا کئے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ ہمارے وکلا نے براڈ شیٹ سے متعلق فیصلے منظر عام پر لانے کےلیے رابطہ کیا تھا جس کے جواب میں انہوں نے اس پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔شہزاد اکبر نے کہا کہ براڈ شیٹ کے معاملے میں کوانٹم اور ہائی کورٹ کے احکامات تھے، عدالت کا فیصلہ اپیل پر ہونے کی وجہ سے عوام کے لیے قابل رسائی تھا البتہ واجب ادا کی رقم کے تعینکے حوالے سے کوانٹم کا حکم پرائیویٹ تھا۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے حکم پر ہم نے اپنے وکلا کے ذریعے براڈ شیٹ کے وکلا سے رابطہ کیا گیا اور ان سے تحریری طور پر ان سے رضامندی حاصل کی گئی کہ حکومت پاکستان تمام فیصلوں کو منظرِ عام پر لانا چاہتی ہے جس پران کی جانب سے بتایا گیا کہ ان کے موکل کو یہ فیصلے منظر عام پر لانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔براڈ شیٹ کمپنی کے ساتھ معاملات کے آغاز سے تفصیلات بتاتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ سال 2000میں جون کے مہینے میں قومی احتساب بیورو (نیب)اور براڈ شیٹ کے مابیناثاثہ برآمدگی کا پہلا معاہدہ ہوا جس کے بعد جولائی 2000میں ایک اور ادارے انٹرنیشنل ایسٹ ریکوی کے ساتھ ایک اور معاہدہ ہوا۔انہوں نے کہا کہ دسمبر 2000میں جب نواز شریف اس وقت کی حکومت سے ڈیل کر کے سعودی عرب چلے گئے تو ایک اور معاہدہ ہوا جو چلتا رہا اوراس میں اس کمپنی کو مختلف اہداف دیے گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ 28اکتوبر 2003میں حکومت پاکستان یعنی نیب نے براڈ شیٹ کے ساتھ یہ معاہدہ منسوخ کردیا جس کے بعد دونوں اداروں نے 2007میںحکومت پاکستان کو نوٹس دے دیا تھا کہ ہماری رقم واجب الادا ہیں۔مشیر داخلہ نےکہا کہ ان نوٹسز کے تناظر میں آئی اے آر کے ساتھ جنوری 2008میں تصفیہ کیا گیا اور انہیں 22لاکھ 50ہزار ڈالر ادا کیے جانے تھے جو اب بھی نافذ عمل ہے۔انہوں نے بتایا کہ 20مئی 2008کو براڈ شیٹ کے ساتھ بھی تصفیے کے معاہدے پردستخط ہوئے جس کے تحت انہیں 15 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اکتوبر 2009کو براڈ شیٹ نے واجب الادارقم کی ادائیگی کے لیے ایک مرتبہ پھر حکومت پاکستان کو نوٹس بھیجا، چنانچہ اس دور میں دوبارہ ثالثی کی کوششوں کا آغاز ہوا جبکہ پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔انہوں نے کہا کہ ثالثی میں معاملہ چلتا رہا اور 2016میں اپنے اختتام پر پہنچا جس کے تحت اگست 2016میں پاکستان کےخلاف واجب الادا رقم کا دعوی منطور ہوگیا جس کے بعد 2 سال تک رقم کے تعین کا سلسلہ چلا اور اس کا فیصلہ جولائی 2018میں ہوا۔شہزاد اکبر نے بتایا کہ اگست 2018میں ہماری حکومت آئی اور جولائی 2019میں اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ اپیل کی گئی جس کا فیصلہ ہمارےخلاف آیا، جون 2020 میں براڈ شیٹ نے ثالثی کا عبوری حکم حاصل کیا کہ پاکستان کو رقم کی ادائیگی کرنی ہے لہذا اس کے جہاں بھی اثاثے ہوں ان پر ایک ضمنی حکم جاری کیا جائے،یہ حکم ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اور بینک اکانٹس پر لیا گیا۔انہوں نے کہا کہ 31دسمبر 2020کو براڈ شیٹ کوواجب الادا رقم کی ادائیگی کی گئی جس کے بعد اس نے عبوری حکم واپس لے لیا۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے حکم کے مطابق فیصلے کوپبلک کردیاہے، ہم سب کادل دکھتاہے کہ احتساب ہوتانظرنہیں آرہا۔انہوں نے کہا کہ براڈ شیٹ کا معاملہ سامنے رکھنے سے ایک چیز واضح ہوتیہے کہ یہ معاملہ ماضی کی ڈیلز اور این آر اوز کی قیمت ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں جو این آر او اور تصیفے ہوئے اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے کیوں کہ اس کی ادائیگی حکومت پاکستان کو آپ کے ہی ٹیکس کے پیسوں سے کرنی پڑی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں 2007کے این آراو کی قیمت بھی ادا کرنا پڑی رہی ہے، نوازشریف کی ایون فیلڈ پراپرٹی کی تحقیق کا حصہ بھی براڈ شیٹ کو دینا پڑا۔