امریکا کو بائیڈن مل گیا ، ہمیں ایسا حکمران کب ملے گا ، سینئر تجزیہ کار کے حیران کن انکشافات
Abdul Rehman
اسلام آباد نجی ٹی وی پروگرام میں سینئر تجزیہ کار سید انورمحمودنے کہا ہے کہ ’’سیاست آگ بھڑکانے کا نام نہیں، ہمیں ان سول وارکو ختم کرنا ہوگا‘‘یہ الفاظ دنیا کی سب سے طاقتور جمہوریت کے سب سے طاقتور عہدیدار نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہیں۔یہ الفاظ ایک اہم دن پر کیوں کہے گا؟ اس کا جواب ہے کہ 2 ہفتے قبل امریکہ کی جمہوریت کو شدید خطرات لاحق تھےاور امریکی امید کرتے ہیں کہ انہیں آئندہ ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکیوں کو بری طرح تقسیم کردیا تھا
مگر خوش قسمتی سے صدر بائیڈن پرعزم اور سمجھ دار انسان ہیں، انہوں نے اپنی ذاتی زندگی میں کامیابی اور حادثات دونوں کو دیکھا ہے ، ان کا کیریئر تقریبا نصف صدی پر محیط ہے ، وہ 4 دہائیوں تک سینیٹر رہے اور دو بار نائب صدر بھی منتخب ہوئے ، اسی وجہ سے جب وہ کہتے ہیں کہ سیاست آگ بڑھکانے کا کام نہیں تو اس سے پاکستان سمیت تمام جمہوری ممالک میں گھنٹیاں بج جانی چاہئیں۔پاکستان کی سیاسی قیادت کو بائیڈن کے رویے سے سبق سیکھنا چاہئے کیونکہ پچھلے اڑھائی سال سے دونوں ممالک میں جمہوریت کو تباہ کیا جارہا تھا، پاکستان کے کچھ تجربہ کار اور کچھ ناتجربہ کار رہنما نے کچھ ایسا ہی کیا جیسا امریکہ میں ہوتا رہا، ہم جیسے عام لوگ اس صورتحال کو مایوسی سے دیکھتے رہے ۔ ہمارے پاس ایک الیکشن کی مبینہ چوری کی پرانی کہانی ہے اور وہ لوگ اس کہانی کو حکومت کے تیسرے سال میں بھی بیان کر رہے ہیں جنہوں نے اس کی قانونی حیثیت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اسی پارلیمنٹ میں وزارت عظمیٰ کیلئے الیکشن بھی لڑا۔ اب ملک میں فارن فنڈنگ کا کیس، براڈشیٹ کی کہانی بھی چل رہی ہے اور حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی دونوں معاملہ کو اپنے سیاسی انداز سے پیش کر رہے ہیں۔اپنا دفاع ان کا آئینی اور جمہوری حق ہے اور اگر وہ ایسا ہی کرتے ہیں تو اس میں کوئی پریشانی کی بات نہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ اس کے برعکس کر رہے ہیں۔ ہم آج کل پاکستان میں ایک سیاسی بدنظمی دیکھ رہے ہیں اور یہ ہر روز مزید واضح ہورہی ہے ۔ٹرمپ کے جھوٹے بیانیے نے لاکھوں لوگوں کو قائل کرلیا تھا کہ نومبر کے صدارتی الیکشن کو چوری کیا گیا۔ مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کے لاکھوں کارکن اپنے لیڈروں کی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہعمران خان نے فارن فنڈنگ کے نام پر بھارت اور اسرائیل سے رقم لی اور یہ ایک ایسا الزام ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ان کا یہ بھی خیال ہے کہ 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے حق میں دھاندلی کی گئی جبکہ پاکستان کے سابق حکمران پاک صاف ہیں اور کرپشن کے الزامات سیاسی انتقام۔پاکستان جس طرح آج تقسیم ہے ، ایسے میں جمہوریت کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے ؟ہماری سیاسی قیادت ایکدوسرے کو گرانے میں مصروف ہے ، ہمیں بائیڈن جیسا حکمران کب ملے گا جو تمام سیاسی تقسیم کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے ہم وطنوں سے وہ الفاظ کہے جو بائیڈن نے امریکیوں سے کہے ہیں۔براڈشیٹ، فارن فنڈنگ، ایون فیلڈ اور جعلی اکائونٹس کے معاملات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم مستقبل قریب میں بائیڈن جیسے الفاظ سننے سے قاصر رہیں گے ۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھیایسا دکھائی نہیں دیتا جو سیاست میں جلتی ہوئی آگ کو بجھا دے ۔ایسا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا جس سے پاکستان میں جاری (uncivil war) ختم ہو۔ایسے حالات میں ایک مثبت اشارہ ملا ہے کہ نئے تعینات ہونے والے امریکی وزیر دفاع نے پاکستان کو افغان امن عمل میں اہم شرکت دار قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ خطے میں امن عمل کو سبوتاژ کرنے والوں کا مقابلہ کریں گے اور ہم سب جانتے ہیں کہ امن عمل کو کون سبوتاژ کرنا چاہتا ہے ۔