Todays News

آرزوکیس میں ٹرائل کورٹ سے کیس کا ریکارڈ طلب


سندھ ہائی کورٹ نےآرزوکیس میں ٹرائل کورٹ سےکیس کا ریکارڈ طلب کرتےہوئےسماعت 15 فروری تک ملتوی کردی ہے۔

منگل کو سندھ ہائی کورٹ میں آرزو کے شوہرسیدعلی اظہرکی ضمانت منسوخی کے لئے درخواست پرسماعت ہوئی۔ آرزو کے والد کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس کیس میں چائلڈریپ کیس کےالزامات بھی شامل ہیں۔یہ ملزمان ٹرائل کورٹ میں بھی ضمانت کے بعد پیش نہیں ہورہے ہیں جب کہ کیس میں نامزد دیگرملزمان عدالت میں پیش ہورہے ہیں۔وکیل نےعدالت سے مطالبہ کیا کہ علی اظہرکی ضمانت منسوخ کرکےجیل بھیجنے کا حکم دیا جائے۔

گذشتہ سماعت میں سیدعلی اظہرکےوکیل نےعدالت کو بتایا کہ شریعت نےآرزوکواپنےشوہرکےساتھ رہنےکی اجازت دی ہے۔عدالت نےآرزوکےوالد سمیت دیگرفریقین سےبھی جواب طلب کرلیا۔والد کےوکیل نےجواب جمع کرانےکےلیےمہلت مانگ لی۔

کیس کا پس منظر

کراچی کی ریلوے کالونی کے رہائشی والدین کے مطابق ان کا تعلق مسیحی مذہب سے ہے۔عدالت میں ان کے پیش کردہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے جاری کردہ کم عمر بچوں کے سرٹیفیکیٹ کے مطابق ان کی بیٹی کی تاریخ پیدائش31جولائی2007ہے۔

اس کیس میں درج کی گئی ایف آئی آر کےمطابق لڑکی کے والدین کا کہنا تھا کہ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی کو ان کے 44 سالہ پڑوسی نے12 اکتوبر2020 کواغوا کیا۔اس کا زبردستی مذہب تبدیل کرایا جس کےبعد کم عمری کےباوجود اس کی شادی کرادی گئی۔اس طرح اُن کے مطابق یہ کیس اغوا کے ساتھ ساتھ ریپ کا بھی ہے۔یہ معاملہ میڈیا پرآنےاورعدالتی حکم پر پولیس نےلڑکی کو بازیاب کیا۔ جب کہ اغوا کے کیس میں نامزد ملزم اور لڑکی کے شوہر کو بھی گرفتارکرلیا گیا۔

ایف آئی آر میں شامل دفعات

بچی کےوالدین کی جانب سےدفعہ 5،8،9 سندھ چائلڈ میرج قانون سال 2016 اورچائلڈ میرج ایکٹ سال 2013 کے سیکشن 6 اور کوڈ آف کرمنل پروسیجرکےسیکشن 100 کےتحت درخواست دائرکی گئی ہے۔

کم عمری پر قانون

واضح رہےکہ اغوا اور ریپ کے سنگین جرائم کے ساتھ ساتھ سندھ میں 18 سال سے کم عمر میں شادی کرنا بھی جرم ہے۔اس جرم کےمرتکب افراد بشمول نکاح خواں کوقید کےساتھ جرمانےکی سزائیں مقررہیں۔جب کہ ایسی شادی کی قانونی طورپرکوئی حیثیت نہیں ہے۔البتہ کم عمری میں مذہب تبدیل کرنےپرکوئی قانونی قید نہیں ہے۔

Exit mobile version