Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the eventin domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/todaysne/domains/todaysnews.pk/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
Todays News

کیا زمین پر کسی آفت کی صورت میں یہاں موجود زندگی کو بچایا جاسکتا ہے؟


اگر زمین پر کسی تباہ کن وبا، سپر آتش فشاں کے پھٹنے، بڑے پیمانے پر جوہری جنگ، عالمی قحط سالی یا سیارچے کے گرنے سے تباہی ہوئی تو کیا اس وقت زمین پر موجود تمام جاندار ہمیشہ کے لیے صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے؟ شاید ماہرین نے اب اس سوال کا جواب نفی میں دے دیا ہے۔

بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنسدانوں نے ایک منصوبہ پیش کیا ہے جس کے تحت دنیا بھر میں پائے جانے والے 67 لاکھ جانداروں کے ڈی این اے نمونے کشتی نوح کی طرح چاند پر محفوظ کیے جائیں گے۔

سائنسدانوں نے اسے ماڈرن گلوبل انشورنس پالیسی قرار دیا ہے جس کے تحت تمام جانداروں کے بیج، اسپرمز اور بیضے چاند کی سطح کے نیچے ایک والٹ میں محفوظ کیے جائیں گے۔

امریکا کی ایری زونا یونیورسٹی کے 6 سائنسدانوں نے یہ منصوبہ مارچ کے آغاز میں انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجنیئرز ایرو اسپیس کانفرنس کے دوران پیش کیا، جہاں ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے سے انسانوں کو معدوم ہونے سے بچانے مدد ملے گی۔

اس منصوبے کو لونر آرک کا نام دیا گیا ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر زمین پر کسی تباہ کن وبا، سپر آتش فشاں کے پھٹنے، بڑے پیمانے پر جوہری جنگ، عالمی قحط سالی یا سیارچے کے گرنے سے تباہی ہو تو یہ منصوبہ انسانوں سمیت دیگر جانداروں کو معدوم ہونے سے بچا سکے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ زمین کا ماحول قدرتی طور پر کمزور ہے، مگر چاند پر زمینی حیات کے ڈین این اے نمونوں کو محفوظ کرنے سے کسی بہت بڑے سانحے سے جانداروں کی اقسام معدوم ہونے پر بچایا جاسکے گا۔

ویسے تو یہ خیال کسی سائنس فکشن ناول یا فلم کا لگتا ہے، مگر اسے پیش کرنے والے سائنسدانوں نے تخمینہ لگایا ہے کہ 67 لاکھ جانداروں کے اسپرم، بیضے اور بیجوں کو چاند پر محفوظ کرنا قابل عمل آپریشن ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان نمونوں کو ڈھائی سو خلائی پروازوں کے ذریعے چاند پر پہنچایا جاسکے گا۔ اس کے مقابلے میں ایک بین الاقوامی اسپیس اسٹیشن کی تعمیر کے لیے 40 پروازوں کی ضرورت ہوگی۔

ان نمونوں کو چاند کی سطح کے نیچے منجمد ہونے یا ایک دوسرے سے جڑنے سے بچانے کے لیے سائنسدانوں نے اس والٹ کو سولر پینلز سے پاور فراہم کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ اس طرح کے منصوبوں سے انسانیت کو خلائی تہذیب بنانے میں پیشرفت ہوگی اور مستقبل قریب میں چاند اور مریخ پر انسانوں کے بیسز ہوں گے۔

اس طرح کے منصوبے کے لیے چاند پر مرکز بنانا بہت بڑا لاجسٹک چیلنج ہے مگر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی کے چاند پر بھیجے جانے والے مشنز سے اس طرح کے تعمیراتی منصوبوں کی بنیاد رکھنے میں مدد ملے گی۔

اس منصوبے کے لیے کھربوں ڈالرز درکار ہوں گے مگر سائنسدانوں کے خیال میں اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی شراکت داری سے ایسا ممکن ہوسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ضرورت پڑی تو اس منصوبے کو 10 سے 15 سال میں مکمل کیا جاسکتا ہے۔

Exit mobile version