کرونا وائرس دماغ پر کیسے حملہ کرتا ہے؟

0


کرونا وائرس کو نظام تنفس پر حملہ کرنے والا وائرس سمجھا گیا تھا تاہم ایک سال میں کی جانے والی ریسرچز سے علم ہوا کہ یہ وائرس دماغ سمیت جسم کے کسی بھی عضو کا اپنا نشانہ بنا سکتا ہے۔

حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 دماغ کے 2 اقسام کے خلیات نیورونز اور آسٹرو سائٹس کو متاثر کر سکتی ہے۔

لوزیانا اسٹیٹ یونیورسٹی کی اس تحقیق کے نتائج سے اس ممکنہ وجہ کی نشاندہی ہوتی ہے جو کووڈ کو شکست دینے کے باوجود لوگوں میں طویل المعیاد دماغی و اعصابی علامات کا باعث بنتی ہے۔

ویسے تو کووڈ کو نظام تنفس کا مرض سمجھا جاتا ہے مگر یہ جسم کے متعدد اعضا بشمول دماغ کو متاثر کر سکتا ہے اور لوگوں کو یادداشت کی کمزوری، تھکاوٹ اور دماغی دھند جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

ماہرین کی جانب سے یہ سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کرونا وائرس سے دماغی مسائل کا سامنا کیوں ہوتا ہے۔

کرونا وائرس انسانی خلیات سے منسلک ہونے کے لیے ایس ٹو ریسیپٹرز کو ہدف بناتا ہے، یہ ریسیپٹرز ایسے پروٹیشنز ہوتے ہیں جو متعدد اقسام کی خلیات کی سطح پر موجود ہوتے ہیں۔

اس طرح کے خلیات پھیپھڑوں، دل، گردوں اور جگر میں ہوتے ہیں، مگر اب تک یہ واضح نہیں تھا کہ ریڑھ کی ہڈی اور دماغی خلیات میں بھی کرونا وائرس کو حملہ کرنے کے لیے ریسیپٹرز کی ضرورت ہوتی ہے یا نہیں۔

اس کو جاننے کے لیے ماہرین نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کن دماغی خلیات میں ایس 2 ریسیپٹرز ہوتے ہیں اور اگر ہوتے ہیں تو کیا وہ وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

اس مقصد کے لیے ماہرین نے لیبارٹری میں تیار کیے گئے انسانی دماغی خلیات کو لیا اور ان میں ایس 2 ریسیپٹرز کی موجودگی کو دیکھا، انہوں نے نیورونز اور آسٹراسائٹس جیسے معاون خلیات کا بھی تجزیہ کیا۔

یہ خلیات مرکزی اعصابی نظام کے متعدد اہم افعال میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جبکہ خون اور دماغ کے درمیان موجود رکاوٹ کو برقرار رکھتے ہیں۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ان دونوں میں ایس 2 ریسیپٹرز موجود ہوتے ہیں جس کے بعد دیکھا گیا کہ یہ وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں یا نہیں۔

اس مققصد کے لیے لیبارٹری تجربات کے دوران تدوین شدہ وائرس کے اسپائیک پروٹین کو استعمال کیا گیا اور دریافت کیا کہ وہ خلیات کو آسانی سے متاثر کرسکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ دونوں اقسام کے خلیات کرونا وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں تاہم آسٹراسائٹس میں یہ امکان نیورونز کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔

محققین اس حوالے سے کچھ واضح طور پر کہنے سے قاصر ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے مگر ان خلیات کی بہت زیادہ مقدار وائرس کو حملہ کرنے اور اپنی نققول بنانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایک بار آسٹروسائٹس وائرس سے متاثر ہوجائے تو وہ ان خلیات کو نیورونز تک رسائی کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔

اس سے وضاحت ہوتی ہے کہ کووڈ کے مریضوں میں متعدد اعصابی و دماغی علامات بشمول سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی، فالج اور دیگر کا سامنا ہوتا ہے۔

اس تحقیق کے پہلو محدود تھے یعنی یہ لیبارٹری میں ہوئی اور کسی زندہ انسان کے پیچیدہ ماحول میں وائرس کے اثرات کا جائزہ نہیں لیا گیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here