Notice: Function _load_textdomain_just_in_time was called incorrectly. Translation loading for the eventin domain was triggered too early. This is usually an indicator for some code in the plugin or theme running too early. Translations should be loaded at the init action or later. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.7.0.) in /home/todaysne/domains/todaysnews.pk/public_html/wp-includes/functions.php on line 6114
دعا منگی کیس کے مرکزی ملزم کو جیل میں کیا سہولیات میسر تھیں؟ تہلکہ خیز انکشافات
Abdul Rehman
کراچی : دعا منگی اور بسمہ کیس کا مرکزی مزکری ملزم زوہیب کو جیل میں بی کلاس کی سہولیات دینے کا انکشاف سامنے آیا ، پولیس اہلکار نے بتایا زوہیب کو کبھی بھی ہتھکڑی میں عدالت نہیں لایا گیا۔
تفصیلات کے مطابق کراچی کے ہائی پروفائل اغواء کار زوہیب قریشی کے فرار کے معاملے پرآر وائی نیوز نے کورٹ پولیس اور قیدیوں کا حال جاننے کے لیے خفیہ آپریشن کیا۔
آپریشن میں کورٹ پولیس کے زوہیب قریشی اور دیگر معاملات پر اہم انکشافات سامنے آئے اور دعا منگی اور بسمہ کیس کا مرکزی کردار زوہیب بھی بی کلاس کا قیدی نکلا۔
اہلکار نے انکشاف کیا کہ زوہیب کو جیل میں سب سے بڑی سہولت بی کلاس دی گئی تھی اور اسے کبھی بھی ہتھکڑی میں عدالت نہیں لایا جاتا تھا۔
رپورٹر نے سوال کیا کہ زوہیب قریشی کو بی کلاس کیوں دی گئی، جس پر پولیس اہلکار نے بتایا بی کلاس اعلی تعلیم یافتہ کو ملتی ہے یا کوئی اور نظام ہوگا، تفتیش والوں کو سرکاری گاڑی مشکل سے ملتی ہے۔
اہلکار نے بتایا کہ جب وین یا موبائل نہیں ملتی تو مجبورا پرائیویٹ میں لانا پڑتا ہے، میں تفتیش والا ہوں، مجھے سرکاری ڈیزل نہیں ملتا، کسی دوست کی، پولیس والے کی اپنی یا پرائیویٹ گاڑی لانی پڑتی ہے۔
اے آر وائے نیوز کے رپورٹر نذیر شاہ نے سوال کیا کہ آپ افسران کو بولتے نہیں، جس پر اہلکارنے جواب دیا کہ بولیں گے تو افسر گھر بھیج دیں گے کیا افسران سے کوئی الٹی سیدھی بات کر سکتا ہے،اگلے دن ہم یہاں نہیں ہونگے باہر ہوں گے۔
پولیس اہلکار نے انکشاف کیا کہ ایک ایک سپاہی کو 5 سے دس قیدیوں کی زمہ داری دی جاتی ہے، ہر سپاہی اپنے سپرد ہونے والے قیدی کا جواب دہ ہوتا ہے، مجھے قیدی لا کردیے گئے، کس چیز میں لائے مجھے یہ پتہ نہیں۔
اہلکار کا کہنا تھا کہ جیل سے اگر گاڑی نہیں ملے گی تو قیدی کو کیسے لے جائیں گے، اگر مجھے کہتے ہیں قیدی لے جاو تو لازمی بات ہے کسی طرح بھی لے جانا ہے۔
دوسری جانب اس حوالے سے وکیل نے اپنے مؤقف میں کہا کہ پرائیویٹ گاڑیوں میں بھی قیدیوں کو لایا جارہا ہے، پولیس کے پاس وسائل کی کمی ہے یا کوئی اور وجہ پتہ نہیں،قانون میں ایسا کوئی سیکشن نہیں کہ قیدیوں کو فون پر بات یا سگریٹ نوشی کروائی جائے۔