بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے کہاں لینڈ ریکارڈ سینٹرز بنائے جا رہے ہیں؟
Abdul Rehman
اس وقت85 لاکھ سے زائد پاکستانی دنیا کے مختلف ممالک میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں۔
دیار غیر میں رہنے والے ان محنت کشوں کی ملک میں نہ صرف اپنی جائیداد موجود ہوتی ہیں بلکہ وہ ریئل سٹیٹ کے شعبہ میں سرمایہ کاری بھی کرتے ہیں۔
اس حوالے سے انھیں دو بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے زمین کی خرید و فروخت اور انتقال کے وقت انھیں پاکستان میں موجود ہونا پڑتا ہے کیونکہ یہ قانونی ضرورت ہے۔
دوسرا ان کے عزیز و اقارب، پراپرٹی مافیا اور دیگر عناصر ان کی وراثتی یا کاروباری جائیدادوں پر قابض ہو جاتے ہیں۔
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی زمینوں پر قبضے کے مسائل حل کرنے کے لیے تو سپریم کورٹ، صوبائی ہائی کورٹس، وزارت داخلہ، ایف آئی اے اور وزارت سمندر پار پاکستانیز کے زیر اہتمام او پی ایف سمیت کئی دیگر ادارے کارروائیاں عمل میں لاتے ہیں۔ اور اس حوالے سے خصوصی ٹاسک فورسز، شکایات سیل اور عنقریب خصوصی عدالتوں کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا ہے۔
لیکن لینڈ ریکارڈز تک رسائی اور اس میں تبدیلی میں بیرون ملک پاکستانیوں کو پیش آنے والی مشکلات کا تاحال خاطر خواہ حل میسر نہیں آ رہا تھا۔
اس مسئلے کے حل کے لیے اب صوبہ پنجاب جس کے رہائشیوں کی تعداد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا نصف ہے، نے قدم آگے بڑھایا ہے اور اوورسیز پاکستانیز کمیشن پنجاب نے چار ملکوں میں لینڈ ریکارڈ سینٹرز بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اوورسیز پاکستانیز کمیشن کے ایک ترجمان نے اردو نیو ز کو بتایا کہ ’جنوری 2019 سے لے کر اب تک یعنی دو سال میں پنجاب اوورسیز پاکستانیز کمیشن کی پورٹل پر موصول ہونے والی 21 ہزار 600 شکایات میں سے 13 ہزار 400 سے زائد شکایات کو نمٹایا جا چکا ہے۔ جس کی شرح 62 فیصد سے زائد بنتی ہے۔ ان دو برسوں میں سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی 9 ارب روپے سے زائد مالیت کی جائیدادیں قابضین سے واگزار کرائی گئی ہیں۔ان میں رہائشی، زرعی اور کمرشل جائیدادیں شامل ہیں۔‘
انہی شکایات کے تناظر میں پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی نے ریئل سٹیٹ کے شعبہ میں سرمایہ کاری کے لیے سہولت فراہم کرنے اور فراڈ سے بچانے کے لیے چار ممالک میں پاکستان کے 14 مشنز میں خصوصی کاؤنٹرز قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی معظم علی سپرا نے اردو نیوز کو بتایا کہ امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں پاکستانی سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں یہ خصوصی کاونٹرز قائم کیے جائیں گے۔
’امریکہ میں واشنگٹن، شکاگو، ہیوسٹن، لاس اینجلس اور نیو یارک جبکہ برطانیہ میں لندن، مانچسٹر، برمنگھم، گلاسگو اور بریڈ فورڈ میں یہ سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔‘
ان کے مطابق ’سعودی عرب میں ریاض اور جدہ جبکہ متحدہ عرب امارات میں ابوظہبی اور دبئی میں خصوصی کاؤنٹرز کے ذریعے پنجاب لینڈ ریکارڈ سینٹرز تک رسائی دی جائے گی۔‘
ڈی جی لینڈ ریکارڈ اتھارٹی نے بتایا کہ ’پنجاب میں کسی بھی زمین کی خرید و فروخت یا زمین جائیداد کے کاغذات کے حصول کے لیے اراضی مراکز جانا لازمی ہے۔ جہاں فوٹو اور فنگر پرنٹ کے ذریعے تصدیق کے بعد ہی یہ دستاویزات دی جاتی ہیں۔ دوسرا طریقہ بیرون ملک مقیم فرد کی جانب سے مختار نامہ بھیج کر زمین جائیداد کی منتقلی کا ہے جس کی سفارت خانے اور متعلقہ حکام سے تصدیق ہو کر آنے میں تین سے چار ماہ لگ جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’عموماً پنجاب میں کسی بھی فرد کی جگہ کوئی بھی دوسرا زمین خرید لیتا ہے۔ جس سے اصل سرمایہ کار کو نقصان ہونے، فراڈ، زمین ہتھیانے اور قبضے جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی وجہ سے وزیراعظم نے سفارت خانوں میں خصوصی کاؤنٹرز قائم کر کے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو لینڈ ریکارڈ سینٹرز تک رسائی کی ہدایات دیں۔‘
ڈی جی لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کے مطابق ’پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کی جانب سے قائم کیے گئے ان کاؤنٹرز پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو روایتی اور غیر روایتی فردات کے اجراء، نادرا ریکارڈ سے تصدیق کے بعد زمین جائیداد کی ڈیجیٹل منتقلی، فوری طور پر لینڈ ریکارڈ میں خریدار کے نام پر ریکارڈ اپ ڈیٹ کی سہولت، انتقال نامے کی کاپی کے پرنٹ اور سرکاری واجبات کی وصولی جیسے اہم کام کیے جائیں گے۔
اس سے نہ صرف فراڈ وغیرہ میں کمی آئے گی بلکہ سرکاری واجبات میں بھی اضافہ ہوگا اور ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔
پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کے مطابق اس حوالے سے تمام 14 قونصل خانوں کے لیے آئی ٹی سے متعلق ساز و سامان خرید کر بھجوایا جا چکا ہے۔ اسی طرح کاؤنٹرز کا قیام بھی عمل میں لایا جا چکا ہے۔ تمام عملے کا انتخاب اور تعیناتیوں کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے۔ عملے کی ٹریننگ کا سلسلہ جاری ہے جبکہ نادرا کے ساتھ لنک بھی قائم کیا جا چکا ہے۔